United Arab Emarate History

 

۔
متحدہ عرب امارات
تحقیق و ترتیب
سید عبید مجتبی


بلندوبالاعمارتیں خوبصورت اورصاف ستھری سڑکیں بڑے بڑے بازار جن میں دنیا کا ہر طرح کا سامان بھرا ہوا ہوتاہے اور اِن بازاروں میں سونے اور جواہرات کی بڑی بڑی دوکانیں جن میں سونا اور قیمتی جواہرات اس طرح سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں کہ جیسے کہ ان کو یہاں پر مفت دیا جاتا ہے یا پھر ان سونے اور جواہرات کی قدر نہیں ہے

شیخ زید بن سلطان النہیان مرحوم بانی صدر متحدہ عرب امارات
  مگر ایسا نہیں ہے خریدار تو دنیا کے ہر ملک کا یہاں پر نظر آتا ہے اس کے ساتھ ہی ساتھ پھر قانو ن کی اس قدرپابندی کہ نہ تو کوئی اس سونے اور ان قیمتی اشیا کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہے اور نہ ہی کوئی ٹیڑھی آنکھ کرنے کے بارے میں سوچ بھی سکتا ہے یہ سب اگر کسی نے دیکھا نہیں ہے تو اس کو ایسا معلوم8 ہوگا کہ وہ داستانِ الف لیلہ یا داستانِ امیر حمزہ پڑھ یا سن رہا ہے مگر سچ یہ ہے کہ یہ نہ تو کوئی داستان ہے اور نہ ہی ہالی وڈ کی فلم کی روداد بلکہ یہ عرب دنیا کے خوبصورت ترین مگر چھوٹے سے ملک متحدہ عرب امارات کے مختلف شہروں کا ایک مختصر سا تذکرہ ہے۔
جب بحیرہ عرب سے بحری جہاز کے زریعے خلیج فارس میں داخل ہوتے ہیں توساحل عرب کی جانب جو تکون سا نکلا ہوا ہے اس کو عبور کرنے کے بعد الٹے ہاتھ پر جو خطہ سب سے پہلے پڑتا ہے اور جو کہ ایرانی ساحل کے بالمقابل ہے اس کو عرب امارات کہا جاتا ہے سرزمینِ عرب کا حصہ اور خلیج فارس کے کنارے پر واقع عرب امارا ت اگر چے رقبے اور آبادی کے اعتبار سے دنیا کے بہت سے ممالک سے چھوٹا ہے مگر بہت سے معاملات میں دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت بہتر اور نمایاں ہے ان میں عرب امارات کی ساتوں ریاستوں کے حکمرانوں کا رویہ بھی شامل ہے جو کہ انہوں نے اپنایا ہوا ہے وہ اس طرح کا ہے کہ قانون کی پابندی لازمی کرنا اور قانون پر ہر اعتبار سے عمل درآمد کرانا ہے کچھ بھی اور کوئی بھی کیوں نہ ہو قانون کی پابندی لازم ہے اس کی خلاف ورزی کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا شاید یہ ہی وجہ ہے کے دنیا کے اکثر ممالک کے تاجر عرب امارات میں تجارت کرنے میں اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتے ہیں اسی لئے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ عرب امارات میں آکر کاروبار کریں کیونکہ ان کو جو تحفظ اور امن عرب امارات میں ملتا ہے وہ ان کو اپنے ملک میں بھی نہیں مل سکتا ہے اور یہ کسی بھی کاروباری ماحول کے لئے انتہائی ضروری ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ہر بڑے تاجر کی خواہش ہے کہ وہ جو بھی کاروبار کرے اس کا کسی نہ کسی طرح سے عرب امارات سے تعلق ضرور ہو۔
جدید دنیا کے اس نوزائدہ جدید ترین ملک کی تاریخ دیگر ملکوں کے مقابلے میں بہت قدیم ہے یہ دنیا کے اس خطے میں واقع ہے جو کہ ہمیشہ ہی سے تجارتی شاہراہ کہلاتی رہی ہے مشرق سے مغرب کی جانب جانے والے تاجر اسی راستے کے زریعے سے گزرتے ہوئے دنیا کی قدیم ترین بندرگاہ بصرہ اور دیگر بندرگاہوں تک جاتے تھے اب سے پانچ ہزار سال کی تاریخ کو اٹھا کر دیکھیں اور اس کے بعد کے دور کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آئے گی کہ پانچ ہزار سال قبل اور موجودہ دور میں جن مقامات کو اہم ترین شمار کیا جاتا ہے ان میں خلیج فارس شامل ہے اس وقت دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں اورقدیم ترین مذاہب نے اسی خلیج فارس کے کناروں پر جنم لیا تھا عراق ‘ایران اور سعودی عرب ان مقامات میں سے شمار کئے جاتے ہیں جہاں پر قدیم تہذیبوں اور مذاہب نے جنم لیا ہے دنیا کے جو بڑے مذاہب ہیں یا قدیم مذاہب ان سب کی ابتدا اسی خلیج فارس کے ساحلوں پر ہوئی ہے پارسی مذہب‘ یہود‘ عیسائیت اور اسلام ان سب کا مرکزیہ ہی خلیج عرب ہے موہنجو داڑو کی تہذیب کو لے لیں یا عراق کی تہذیب ان سب کا مرکز خلیج فارس یا عرب ہی ہے اس اعتبارسے عرب امارات خلیج فارس کے جس حصے میں واقع ہے وہ بہت اہم ترین ہے اب سے تقریباًساڑھے چارہزار سال قبل اور حضرت عیسیٰ کی ولادت سے ڈھائی ہزار سال قبل عرب امارات کے علاقے اور اس سے متصل علاقے پر قوم سبا کا تسلط تھا یہ قوم سبا وہی ہے جس کاقران کریم میں سورۃ سبا میں تذکرہ آیا ہے اس قوم کے عروج کا جو سبب مورخین بیان کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس قوم کے پاس جو خطہ تھا وہ تجارت کیلئے بہت ہی بہترین تھا۔

یہ خطہ مشرق اور مغرب کے درمیان ایک طرح سے رابطے کا زریعہ بنا ہوا تھا جس کی بدولت ہوتایہ تھا کہ مشرق کے مما لک کی وہ اشیا جو کہ مغرب کی جانب لے جائی جاتی تھیں وہ سب کی سب اسی علاقے میں لائی جاتیں تھیں اور مغرب کی اشیا بھی مشرقی ممالک میں لے جانے کے لئے اسی علاقے میں لائی جاتیں تھیں اس اعتبار سے دنیا کی تاریخ میں اہم ترین کردار اس علاقے نے ادا کیا ہے قدیم دنیا کے اہم ترین خطوں میں خلیج فارس کو شمارکیا جاتا تھا اس وقت اس خطے کا شمار دنیا کے دولت مند ترین اور اہم خطوں میں شمار کیا جاتا تھا۔
41,600 مربع کلومیٹرپرپھیلے ہوئے عرب امارات جس کے پاس 400 میل کا خلیج عرب کا وسیع ساحل ہے جولائی 1971 میں وجود میں آنے والے اس نئے وفاق نے جس میں اس وقت علاقے کی چھ امارات ابوظہبی،دبئی،شارجہ، عجمان، ام القوین اور فجیرہ نے شمولیت کا اظہار کیا تھا بعد میں 1972 میں ساتویں ریاست راس الخیمہ نے شمولیت اختیار کرلی جس کے نتیجے میں اس طرح سات ریاستوں کا وفاق بن گیا اس وفاق جس کی سربراہی شیخ ز ید بن سلطان النہیان کررہے تھے جلد ہی اس خطے نے عرب دنیا‘ اسلامی دنیااور بین الاقوامی معاملات میں اہم کردارا ادا کرناشروع کردیامتحدہ عرب اما رات کے قیام کے وقت مندرجہ زیل امور پر اتفاق ہوا تھا۔
(1) تمام ریاستیں اندرونی طور پرخود مختار رہیں گی مگر مجموعی طور پر ایک وفاق کی صورت میں اکھٹی رہیں گی۔
2) ( وفاقی حکومت کا انتظام ایک کونسل کے ذمہ ہوگا جس میں تمام امارات کے حکمرانوں کی حیثیت برابر کی سی ہو گی ۔
(4) رکن امارات کا مشترکہ دفاعی نظام ہوگا جو عرب لیگ اور اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق ہوگا ۔
(5)کونسل کا ایک مستقل اور مکمل دستورہوگاکونسل سیا سی ، دفاعی، معاشی، ثقافتی ،اور بین الاقوامی مسائل پر ایک متفقہ پالیسی مرتب کرے گی ۔
متحدہ عرب اما رات کا دارلخلافہ ابوظہبی مقرر کیاگیا جبکہ متحدہ عرب اما رات کے صدر کے طور پر شیخ زید بن سلطان النہیان اور نائب صدر کے طور پر دبئی کے موجودہ امیر کے والد مرحوم شیخ راشد بن سعید المکتوم کو منتخب کیا گیا ۔
متحدہ عرب اما رات کا وجود میں آجانا دنیا کے لئے اہم واقعہ کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ متحدہ عرب اما رات کے قیام کے بعد سے اس علاقے میں جو اہم ترین واقعات رونما ہوئے اس میں متحدہ عرب اما رات نے ا ہم ترین اور ذمے دار کردار ادا کیا اس کے نتیجے میں علاقے کا امن قائم بھی رہا اور علاقے کی اہمیت بھی ۔سات امارات پر مشتمل اس وفاق کانظام کچھ اس طرح کا ہے متحدہ عرب اما رات جو کہ چھوٹی اور بڑی ریاستوں ابو ظہبی، دبئی، شارجہ ،ام لقوین ،فجیرہ ،عجمان،راس الخیمہپرمشتمل ہے اس وفاق میں ابوظہبی اگرچے کہ رقبے اور دولت کے اعتبار سے سب سے بڑی امارت ہے مگر امارات کے وفاق میں تمام امارات کو یکساں قدر اور اہمیت حاصل ہے مثلاً ابو ظہبی کا رقبہ سب سے زیادہ ہے جو کہ 26.000 کلو میٹر پر مشتمل ہے اس کے مقابلے میں عجمان کی ریاست کا رقبہ کل 100 کلو میٹر ہے مگر اس کے باوجود امارات کے وفاق میں اس کی حیثیت اس کی سات امارات میں سے ایک ہے جس کی نمائندگی سپریم کونسل میں ہے جو کہ عرب امارات کا بنیادی ادارہ ہے عرب امارات کا نظام کچھ اس طرح سے ہے کہ عرب امارات کا بنیادی ادارہ سپریم کونسل ہے جس کے اراکین ساتوں امارات کے سربراہ ہیں جس کی نوعیت اور اراکین کے نام چارٹ نمبر1میں ملاحظہ کیجیے
ابوظہبی متحدہ عرب امارات کی 7 امارتوں میں سب سے بڑی امارت ہے اور اس کا شہر ابوظہبی ملک کا دارالحکومت ہے۔ یہ خلیج فارس کے وسط مغربی ساحل پر انگریزی حرف T کی شکل کے ایک جزیرے پر آباد ہے۔جہاں 2000ء کے اندازے کے مطابق 10 لاکھ نفوس آباد ہیں جن میں 80 فیصد غیرملکی تارکین وطن ہیں۔
امارت ابوظہبی ملک کی کل دولت کے 70 فیصد حصے کی مالک ہے۔ العین ریاست کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی 2003ء کی مردم شماری کے مطابق تین لاکھ 48 ہزار ہے
UAE en-map.png

متحدہ عرب امارات دنیا کے دیگرممالک کے مقابلے میں اگر چے کہ نوزائدہ مملکت ہی تصور کی جائیگی مگر عوام کو سہولتیں فراہم کرنے عدل انصاف اور عوام دوست ہونے کے ناطے اس وقت دنیا کی بڑی بڑی فلاحی ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ فلاحی عوام دوست اور بہتر تصور کی جاتیں ہیں آئیے ساتوں امارات کا جائزہ لیتے ہیں واضح رہے
کہ یہ جائیزہ مختصر ہے